حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آج شب حضرت امام علی النقی علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے ایران سمیت دنیا بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں میں محافل اور جشن سرورکا انعقاد کیا جارہا ہے جس سے علماء و ذاکرین خطاب کرتے ہوئے امام علیہ السلام کی حیات طیبہ پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
ولادت کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے چھوٹے بڑے شہروں خاص کر مشہد مقدس اور قم المقدسہ میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ ہائے اقدس میں جشن و سرور کی محافل معنقد ہورہی ہیں جس میں بڑی تعداد میں پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے زائرین بھی شریک ہیں۔
امام علی النقی کی زندگی کا مختصر تعارف
امام علی نقی شیعوں کے دسویں امام ہیں آپ کا نام علی اور والد کا نام محمد ہے ابو الحسن ان کی کنیت ہے۔
ہمارے دسویں امام، علی نقی کے نام سے زیادہ معروف ہیں اور آپکو ہادی بھی کہا جاتا ہے، کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق امام علی نقی علیہ السلام کی ولادت باسعادت 15 ذی الحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں ہوئی۔
امام علی النقی علیہ السلام سنہ 220 سے 254 ہجری تک یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے،آپ(ع) نے عمر کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزارے اور آپ علیہ السلام متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصربھی رہے جن میں سے ایک متوکل عباسی تھا.
امام علی نقی علیہ السلام کو سامرہ میں جبری طور پر 20 سال اور 9 ماہ کی مدت تک جبری اقامت پر مجبورکیا گیا اس دوران ظاہری طور پر آرام کی زندگی گزار رہے تھے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ متوکل انہیں اپنے درباریوں میں لانا چاہتا تھا تاکہ اس طرح وہ امام کی مکمل نگرانی و جاسوسی کر سکےاور لوگوں کے درمیان امام علیہ السلام کے مقام کو گراسکے لیکن امام کسی بھی صورت میں متوکل کے دربار میں جانا نہیں چاہتے تھے۔
ایک دن متوکل کو خبر دی گئی کہ امام علیہ السلام کے گھر کو جنگی اسلحے سے بھر دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ گھر میں شیعوں کی جانب سے امام کو لکھے گئے پر اسرار خطوط بھی موجود ہیں تومتوکل نے امام کے گھر پر اچانک حملہ کرنےکا حکم دیا،جب متوکل کے اہلکار امام کے گھرمیں داخل ہوئے تو انہوں نے اس گھر میں امام علیہ السلام کو ایک کمرے میں تنہا پایا جس کا دروازہ بھی بند تھا امام علیہ السلام بند کمرے میں ریت پر بیھٹے عبادت میں مشغول تھے، امام کی حالت دیکھ کر متول کے اہلکار سخت متاثر ہوئے۔
اہلکاروں نے امام علیہ السلام کو گرفتار کرکے جب متوکل کے پاس حاضر ہوئے تو متوکل نے امام کی خدمت میں جسارت کرتے ہوئے شراب کا کاسہ پیش کیا جس پر امام علیہ السلام نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "میرا گوشت و پوست شراب سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے'' متوکل اپنے تقاضے پر شرمندہ ہو کر امام سے کہنے لگا کہ کچھ اشعار سنائیں تاکہ وہ وجد میں آئے امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ میں اشعار کم کہتا ہوں۔ متوکل کے اصرار پر امام نے درج ذیل اشعار پڑھے:
باتوا علی قُلَلِ الأجبال تحرسهم غُلْبُ الرجال فما أغنتهمُ القُللُ
ترجمہ: انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا۔
واستنزلوا بعد عزّ عن معاقلهم فأودعوا حُفَراً، یا بئس ما نزلوا
ترجمہ: عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیا انہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں۔
اشعار اختتام پذیر ہوئے تو متوکل سمیت تمام حاضرین سخت متاثر ہوئے یہاں تک کہ متوکل کا چہرہ آنسؤوں سے بھیگ گیا اور اس نے بساط مےنوشی لپیٹنے کا حکم دیا۔
امام علی النقی علیہ السلام سے اعتقادات، تفسیرِ قرآن، فقہ اور اخلاق میں متعدد احادیث منقول ہیں. زیارت جامعۂ کبیرہ، جو اعلی ترین شیعہ اعتقادی مضامین پر مشتمل اور امام شناسی کا ایک درس کامل ہے، آپ(ع) ہی کی یادگار ہے.
امام علی النقی علیہ السلام نے اپنے دور امامت میں متعدد شاگردوں کی تربیت کی جن میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں.